"بچیوں کی غیر محفوظ عصمت"
::::::::::::::::::::::::::::::::
ہمارے والد صاحب رحمہ اللہ نے لگ بھگ تیس برس قبل ہم سے کہا
"اگر کسی غیر شادی شدہ بچی کے والدین میں سے کوئی ایک دنیا سے رخصت ہوجائے تو وہ بچی خوش قسمت ہے جس کی ماں فوت ہوجائے۔ اور وہ غیر شادی شدہ بچی بدقسمت ہے جس کا باپ فوت ہوجائے"
ہم نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا
"وہ کیوں ؟"
فرمایا
"جن گھرانوں میں ستر پردے کا اہتمام نہیں بھی ہوتا ان گھرانوں کی بچی کے سر پر بھی اگر کوئی نامحرم شخص ہاتھ پھیرتے ہوئے کہے، بڑی پیاری بچی ہے ماشاءاللہ تو ماں خوش ہوتی ہے کہ اس کی بچی کو پیار ملا جبکہ باپ یہ حرکت قبول نہیں کرتا۔ وہ بیٹی کی باؤنڈریز کا محافظ ہوتا۔ ایسے مواقع پر وہ کم ازکم بھی یہ ردعمل ضرور دیتا ہے کہ بیٹی سے کہتا ہے، تم اندر جاؤ۔ چنانچہ کزن وزن والے معاملات میں بھی ماں لاپروائی برتتی ہے جبکہ باپ بیٹی کو سمجھا دیتا ہے "فاصلہ رکھئے" یہ عورت اور مرد کی نفسیات کا ایک بڑا فرق ہے۔ نفسیات کے اسی فرق کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ زنا کے معاملے میں مرد کی نفسیات بہت محتاط جبکہ عورت کی نفسیات غیر محتاط ہے۔ وہ اسے کوئی سنگین معاملہ سمجھتی ہی نہیں"
وہ کچھ دیر کے لئے رکے، نسوار کی چونڈی منہ میں رکھی، اور بات آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا
"چنانچہ ایک معاملہ یہ بھی پیش آتا ہے کہ اگر ماں کو خبر ہوجائے کہ بیٹی کے کسی سے مراسم چل رہے ہیں تو بیٹی کو ڈانٹ تو دیتی ہے مگر باپ کو آگاہ نہیں کرتی۔ یہی معاملہ اگر باپ دیکھ لے تو وہ بیٹی کی گرفت ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی ماں کو بھی فورا آگاہ کردیتا ہے کہ اس پر نظر رکھو۔ مرد و زن کی نفسیات کے اس فرق کا ایک سنگین نتیجہ یہ ہے کہ جن بچیوں کا باپ مر جائے ان کی عصمت غیر محفوظ ہوجاتی ہے اور بمشکل ہی ان میں سے کوئی بچ پاتی ہے۔ ماں بیٹیوں کو کنٹرول بھی نہیں کرپاتی اور پردہ پوشی سے بھی کام لیتی ہے۔ اگر فیملی آزاد خیال ہو تو اس صورت میں تو ماں باقاعدہ صرف نظر کرتی رہتی ہے۔ لھذا وہ بچی بدقسمت ہے جس کا باپ مر جائے"
یہ سب سن کر ہمارا ذہن اپنے محلے کی ان سات بہنوں کی جانب چلا گیا جن کے والد نہ تھے۔ اور محلے کے لونڈے ان سے "خیرات" وصول کرتے رہتے تھے۔
ہمیں اپنے والد کی یہ بات سو فیصد درست لگی تھی مگر ہم آج سے قبل کبھی بھی اسے قلم کی نوک پر نہ لائے تھے۔ کیونکہ جانتے تھے کہ یہ ماڈرن دور اسے تسلیم کرنے کی بجائے بکواس کرے گا۔ مگر ہم نے چھ ماہ قبل یوٹیوب پر ایک بڑے امریکی یوٹیوبر کا ویلاگ سنا۔ انہوں نے امریکی حکومت کی جاری کردہ ایک سروے رپورٹ کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا
The Boy Who Cried Wolf Story in Hindi | Fairy Tales in Hindi | Moral Stories For Kids
"اس رپورٹ کے مطابق امریکہ میں بچیوں کی ایک بڑی تعداد سنگل پیرنٹ کے ساتھ رہ رہی ہے۔ ان میں سے جو بچیاں باپ کے ساتھ رہ رہی ہیں ان میں سے بیس فیصد کم عمری میں ماں بن گئی ہیں۔ جبکہ وہ بچیاں جن کی سنگل پیرنٹ ماں ہے ان میں سے 70 فیصد کم عمری میں ماں بن چکی ہیں"
سو جانِ عزیز ! اگر آپ نے بہاولپور یونیورسٹی سے گزرنے والے سانپ کی لکیر پیٹنی ہے تو شوق سے پیٹئے۔ مگر ہم لکھ کر دیتے ہیں کہ اس سے فرق کوئی نہیں پڑنے والا۔ ہمارے والد کسی کالج یا یونیورسٹی کے فاضل نہ تھے۔ وہ ایک دیہی پس منظر رکھنے والے عالم دین تھے۔ اور آج سے تیس سال قبل ایسی بات کہہ دی تھی جس کے ادراک تک امریکہ جیسا ماڈرن ترین ملک بھی 2023ء میں پہنچا۔ ہماری نام نہاد پڑھی لکھی فیملیوں کو تو ویسے بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے تو صرف شیمپو اور کنڈیشنرسے نہانے، مغربی لباس پہنے، باڈی سپرے، اور پرفیوم کے استعمال کو ہی "ترقی" سمجھ رکھا ہے۔ علم اور شعور ان کے پاس ٹکے کا نہیں۔
نتیجہ یہ کہ ملا ؤں کی تو 99 فیصد بچیوں کی عصمت محفوظ ہے اور ان نام نہاد پڑھے لکھوں کی بچیوں سے آئسکریم پارلر، سینما ہال، یونیورسٹیز کے لانز کے دور افتادہ گوشے، اور گیسٹ ہاؤسز بھرے پڑے ہیں۔ یہ تو وہ احمق ہیں جنہیں اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ بچی اپنے محلے کے قریب واقع کالج کی بجائے دور پار کے کالج میں داخلے پر کیوں مصر رہتی ہے ؟ آپ سمجھاؤ بھی تو اپنی حماقت کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ ہر ایک نے اپنی بچی کو فرشتہ سمجھ رکھاہے۔ اگر ہر باپ کی بیٹی فرشتہ ہے تو پھر یہ گیسٹ ہاؤسز والی کیا ٹیسٹ ٹیوب بےبیز ہیں ؟ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ان کی بچی دن میں اونگھتی یا سوتی کیوں رہتی ہے ؟اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے کیوں پڑ رہے ہیں ؟ وہ ذرا سا کام کرکے تھک کیوں جاتی ہے ؟ وہ دن بدن چڑچڑی کیوں ہوتی جا رہی ہے ؟اس کے موبائل کو گھر کا کوئی فرد غلطی سے بھی چھو لے تو بدک کیوں جاتی ہے ؟
تھوڑا نہیں پورا سوچیے
0 تبصرے