ایک قاضی اور چار گواہ
ایک خاتون نے کسی شخص سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔
اس شخص نے کہا کہ ہم کیسے کوئی کام کر سکتے ہیں جب کہ ایک قاضی اور چار گواہ ہمیں دیکھ رہے ہیں؟
عورت حیران ہوئی، کہنے لگی: کیا کہتے ہو، ایک قاضی اور چار گواہ ہمیں دیکھ رہے ہیں؟
کہنے لگا: ہاں ! قاضی اللہ رب العزت کی ذات ہے اور دو فرشتے میرے اور دو فرشتے تمہارے چار گواہ بھی ہمیں دیکھ رہے ہیں، جب قاضی بھی دیکھ رہا ہو، چار گواہ بھی دیکھ رہے ہوں تو پھر فرد جرم عائد ہونا آسان ہوتا ہے۔
ان کی بات ایسی تھی کہ اس بات کی وجہ سے اس عورت کو اللہ نے توبہ کی توفیق عطا فرما دی۔
آج تو گناہ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ گناہ کا موقع نہیں ملتا ورنہ موقع مل جائے تو قسمت والے ہوتے ہیں جو گناہ سے بچ جاتے ہیں۔
(جدید دلکش واقعات، ص: 348)
التماسِ دعا 🤲🏻
اَللّٰهُمَّ صَلِ٘ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَّمَدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّد ٍوَّعَلٰی آلِ مُحَّمَدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد
حرام کی کمائی، ایک بہترین تحریر | دلچسپ معلومات | جنرل نالج | اردو کہانیاں _!!
ہم عام طور پر خود اپنے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم اپنا آزاد ذہن اور رائے رکھتے ہیں، جس کے درست ہونے پر حقائق، شواہد اور منطق بھی گواہ ہیں۔ غیرمحسوس حربوں سے ہماری رائے پر فرق نہیں پڑتا۔ جب کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ دوسروں کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ انہیں آسانی سے manipulate کیا جا سکتا ہے۔ (خاص طور پر وہ لوگ جو سیاسی یا نظریاتی مخالف ہوں)۔
تو پھر حقیقت کیا ہے؟
یہ ان دونوں کے بیچ میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جانتے ہیں کہ فیس بک پر پوسٹ ہمارے جذبات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ تصاویر، ویڈیوز اور جذبات سے بھرے الفاظ ہمارے موڈ کو بدل سکتے ہیں۔ طیش دلا سکتے ہیں، ہنسا یا رلا سکتے ہیں۔ لیکن کیا ہمارے اعمال پر بھی فرق پڑتا ہے؟
ایسا ایک (متنازعہ) تجربہ 2013 میں 689,000 لوگوں پر فیس بک کے ملازمین نے کیا۔ انہیں بے خبر رکھ کر ان کی نیوزفیڈ میں کچھ ترمیم کی گئی۔ تجربہ کرنے والوں نے کچھ لوگوں سے ان کے دوستوں کی طرف سے آنے والی ایسی پوسٹس نیوزفیڈ سے کم کر دیں جن میں مثبت الفاظ تھے جبکہ منفی الفاظ والی پوسٹ نمایاں کر دیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کے ساتھ اس سے الٹ کیا۔ یعنی ایک گروپ کی ٹائم لائن پر زیادہ منفی مواد تھا اور ایک گروپ کے لئے زیادہ مثبت۔
ایسے لوگ جو زیادہ منفی الفاظ دیکھ رہے تھے، وہ خود اپنی پوسٹ میں زیادہ منفی الفاظ استعمال کرنے لگے۔
اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگرچہ ہم خود اپنے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ الفاظ ہمارے اپنے عمل پر اثر نہیں رکھتے لیکن ہمارا یہ گمان درست نہیں ہے۔ (اگر آپ نے کچھ دیر پہلے کسی کو سوشل میڈیا پر بے نقط سنائی ہیں تو اس میں آپ کی نیوز فیڈ کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے)۔
اس سے پہلے ایپسٹین یہ دکھا چکے تھے کہ سرچ انجن کے نتائج کی ترتیب کسی کے سیاسی خیالات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اور ایسے کئی تجربات یہ دکھا چکے ہیں کہ ہم manipulate کئے جانے سے محفوظ نہیں ہیں۔
کیمبرج انالٹکا کا کیا گیا کام یہ بتا چکا ہے کہ ہماری شخصیت کو جانا جا سکتا ہے اور اس حساب سے مواد کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔
ان سب حقائق کو اکٹھا کیا جائے تو اچھا کیس بنایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی سوچ بدلی جا سکتی ہے اور انہیں ووٹ دینے اور پیسے خرچ کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن نہیں، یہ اتنا آسان بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ طریقے کام تو کرتے ہیں۔ ہم لچک رکھتے ہیں لیکن موم کی ناک بھی نہیں۔ ٹھیک ٹارگٹ کیا گیا مواد فرق ڈال سکتا ہے لیکن زیادہ نہیں۔ ہم پراپیگنڈا نظرانداز کر دینے میں اور کسی بھی پیغام میں سے اپنی مرضی کا مطلب نکالنے میں بہت اچھے ہیں۔ ہمیں manipulate کرنے کے لئے ڈیزائن کردہ بہترین مہم بھی بڑا فرق نہیں ڈال پاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر نے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تو شکست کھانے والوں میں سے کچھ نے کئی سازشی تھیوریاں بنائیں جس میں سے ایک یہ کیمبرج انالٹکا کو بھی شکست کا ذمہ دار قرار دینا تھا۔ ایسے دعوے کی حمایت اعداد و شمار نہیں کرتے۔ (سیاست میں ہارنے والوں کی طرف سے کھسیانی بلی کا معاملہ (sore loser effect) عام ہے۔ ایسا شور و غوغا اس میں شمار کیا جا سکتا ہے)۔
الگورتھم کی دنیا اگرچہ ہمارے رویوں پر کچھ اثر تو ڈال سکتی ہے لیکن فی الحال ہماری سماجی آراء کی دنیا پر قابض ہونے سے قاصر ہے۔
0 تبصرے